Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

 داؤد مرتضیٰ کی تمام چکنی چپڑی باتیں اس کے حصول تک تھیں اس کے ساتھ وقت گزارنے کے بعد وہ اس کے لیے ایک عام سی عورت بن گئی وہ جتنی شدت سے اس کے حصول کا طالب ہوا تھا پھر اتنی ہی شدت سے اس کی رفاقت سے دستبردار ہوچکا تھا۔ حارث کرمانی نے ماہ رخ کو کئی ماہ تک اپنے دل کے سنگھاسن پر بٹھارکھا تھا ، جھوٹا ہی سہی اس سے چاہت و لگاؤ کا اظہار تو کرتا رہا تھا خواہ پھر ایک جانور کے بدلے میں اس کا سودا کرڈالا۔
اس کو داؤد مرتضیٰ کے ساتھ رہتے ہوئے ایک ماہ ہی ہوا تھا کہ ایک پارٹی میں اس کو اپنے دوست غفران احمر کی دوست بھاگئی اور غفران احمر کو ماہ رخ ایسی پسند آئی کہ وہ اپنی چہیتی دوست طوبیٰ کو داؤد مرتضیٰ کو گفٹ کر بیٹھا اور جواباً داؤد مرتضیٰ نے اسے غفران احمر کو تحفے میں دے دیا۔


عجیب دستور تھا زندہ لوگوں کو بے جان شے کی مانند گفٹ کردیا جاتا تھا۔

وہ بھی سرجھکائے کسی پالتو جانور کی مانند اس کے ساتھ چل پڑی۔ اس نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ یہ سب اس کی کرنی کا پھل تھا اس نے جو بویا وہ ہی کاٹ رہی تھی ۔ اس نے ایک جست میں آسمان کو چھونے کی جسارت کی تھی، جاگتے ہوئے سونے کے شیش محل میں حکمرانی کے خواب دیکھے تھے اور دھوکے و سازشوں کے الاؤ میں وہ اپنا سب کچھ خود ہی پھونک بیٹھی تھی ۔
اب اس کے پاس بچا ہی کیا تھا جس کی وہ حفاظت کرتی، عزت، انا، وقار اور اپنا نام تک وہ گنوا بیٹھی تھی ۔ 
غفران احمر داؤد مرتضیٰ سے بھی زیادہ ادھیڑ عمر تھا اس کے انڈے کی طرح چکنے سر پر بالوں کی صرف ایک جھالر رہ گئی تھی ۔ اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی، ناک کسی طوطے کی چونچ کی طرح مڑی ہوئی، رنگت صاف اور چہرے پر سخت جھریاں نمودار تھیں۔
۔ وہ کم گو آدمی تھا مگر اس کی نظریں بولتی تھیں وہ ایک عیار اور مشکل پسند شخص تھا، اس وقت وہ جیپ میں ایک صحرا سے گزر رہے تھے ۔ رات زیادہ نہیں گزری تھی۔ آسمان ستاروں سے جھلملارہا تھا اور اس کے وسط میں چمکتا ہوا آخرتی راتوں کا پورا چاند اپنی شفاف چاندنی ہر سو پھیلارہا تھا، ہوا ٹھنڈی اور خوش گوار تھی۔ ان کی گاڑی کے سوا وہاں کوئی دوسری گاڑی نہ تھی، ماحول میں ایک سکون چھایا ہوا تھا، غفران احمر نے اس سے رسمی گفتگو کی تھی۔
ماہ رخ نے بھی اس سے زیادہ کوئی بات نہ کی تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ ایک کے بعد ایک مرد کی دسترس میں جارہی تھی ، گناہوں کے بوجھ سے اس کی روح بے کل تھی ۔ عجیب زندگی ہوگئی تھی جو موت سے زیادہ تکلیف دے رہی تھی وہ روز مرنے کی دعائیں مانگتی اور زندگی طویل تر ہونے لگتی۔ 
سفر جاری تھا دھیرے دھیرے سے رات گزر رہی تھی گزرتی رات کے ساتھ چاندنی کا غبار بڑھ رہا تھا۔
غفران احمر کی خاموشی ٹوٹی اور وہ اس سے عام سی باتیں کرنے لگا۔ اپنی بے حساب دولت امارات اور محلوں کی باتیں ایک وقت تھا جب اس کو ان دولت و آسائشات کی باتوں میں بڑی کشش محسوس ہوتی تھی اور وہ کسی بھی دولت مند کو دیکھ کر اس کی طرح دولت مند بننے کی خواہش کرتی تھی ، تدبیریں لڑاتی تھیں اور آج وہ ایک محل سے دوسرے اور تیسرے محل کی جانب بڑھ رہی تھی ، اس کے جسم پر قیمتی ملبوس تھا، جیولری ڈائمنڈ کی تھی ، امپورٹڈ میک اپ سے حسن دو آتشہ بنا ہوا تھا۔
اعلیٰ ترین پرفیوم کی دل آویز مہک غفران احمر کے حواسوں کو چھیڑ رہی تھی ۔ اس نے قناعت کا دامن چھوڑا ، قدرت کی عطا کی ہوئی نعمتوں سے فرار حاصل کیا ماں باپ کے پیار بھروسے اور گلفام کی محبت کو ٹھکرا کر وہ خواہشوں کے راستوں پر چلی آئی ۔ کچھ خواہشیں ہاتھ ضرور لگیں اور بدلے میں عزت، انا، خودداری کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی اور مرتے دم تک اسے ادا کرنی تھی۔
وہ رو رہی تھی بے آواز آنسو خاموشی سے بہہ رہے تھے اور دل کر رہا تھا کاش یہ سب ایک بھیانک خواب کی مانند ہو آنکھ کھلے تو وہ اپنے اس کچے پکے گھر میں ہو۔ 
###
شیری کی آج کل عادلہ سے دوستی عروج پر تھی ۔ وہ عادلہ سے ملنے اکثر گھر بھی آجاتا اور صباحت کی اجازت لے کر وہ دونوں عموماً گھر سے باہر چلے جاتے ڈنر اور لانگ ڈرائیو پر بھی نکل جاتے تھے ۔
دونوں ہی ایک دوسرے میں گم ہوگئے تھے یا وہ اپنے دکھوں کا مداوا کر رہے تھے ، محبت کی بازی میں دونوں کو ہی مات ہوئی تھی دونوں ٹھکرائے ہوئے تھے۔ پری نے شیری کی محبت کو قبول نہیں کیا تو طغرل نے عادلہ کی چاہت کو رد کیا اور یوں دو دل ٹھکرائے ہوئے ایک راہ پر چل پڑے تھے ۔ 
”اس طرح کیا دیکھ رہی ہو ؟‘شیری نے ڈرائیو کرتے ہوئے عادلہ سے پوچھا۔
 
”میں نوٹ کر رہا ہوں تم اس طرح مجھے دیکھتی ہو گویا تم کو مجھ پر بھروسہ نہیں ہے، ایسا کیوں کرتی ہو تم؟“
”ایسا نہیں ہے شیری! مجھے آپ پر پورا بھروسہ ہے مکمل یقین بھی ہے ۔ اعتماد تو بس مجھے اپنے مقدر پر نہیں ہے “وہ آہستگی سے گویا ہوئی ۔ 
”کیوں؟“اس نے اسٹیئرنگ سے ہاتھ ہٹا کر اس کے ہاتھ پر رکھا۔ 
”جب میں نے آپ کو پہلی بار دیکھا تو اسی وقت مجھے فیل ہوا آپ جیسے شخص کی مجھے تلاش ہے، آپ میرا آئیڈیل ہیں شیری!“عادلہ نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دباتے ہوئے جذباتی لہجے میں کہا۔
 
”آئی لو یو سو مچ شیری!میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی، آپ آنٹی انکل کو کب بھیجیں گے پرپوزل لے کر“
”اتنی جلدی کیا ہے عادلہ! ابھی میں ان میرڈ لائف انجوائے کرنا چاہتا ہوں ، ابھی تو میرا بزنس بھی اسٹیبلش نہیں ہوا“اس نے عادلہ کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔ 
”آپ کو بلاوجہ کی محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے ، عابدی انکل کا تمام بزنس آپ ہی کا تو ہے پھر کیوں خواہ مخواہ محنت کرکے خود کو تھکارہے ہیں ٹائم ویسٹ کر رہے ہیں ، “وہ منہ بنا کر گویا ہوئی پر شیری خاموش ہی رہا۔
 
”میں آپ سے ملنے کے لیے روز روز نہیں آسکتی، یہ ممی کی مہربانی ہے جو وہ آپ کے ساتھ آنے دیتی ہیں اور گھر جانے تک معاملے سنبھالے رکھتی ہیں اگر گھر میں کسی کو معلوم ہوجائے تو میں شاید زندہ ہی نہ بچوں اور آج تو میرا کزن بھی آسٹریلیا سے واپس آگیا ہے اب اس کی موجودگی میں گھر سے نکلنا بے حد مشکل ہوجائے گا“
”تمہارے کزن کو تم پر چیک رکھنے کا کوئی رائٹ نہیں ہے تم کیوں خوف زدہ ہورہی ہو اس سے “وہ اطمینان سے ڈرائیور کر رہا تھا۔
شام کا اجالا رات کی تاریکی میں ڈھل چکا تھا سڑکوں پر گاڑیاں رواں دواں تھی ۔ 
”دادی جان اور پاپا طغرل بھائی کو ازحد اہمیت دیتے ہیں وہ بھی کسی بڑے بھائی کی طرح ہم بہنوں پر رعب رکھتے ہیں ماسوائے پری کے “
”اچھا! پری پر اس کا رعب نہیں ہے وہ کیوں ؟“اس کی پیشانی پر شکنیں ابھریں اور پل بھر میں غائب ہوگئیں۔ 
”پری نے دیوانہ بنارکھا ہے ان کو پری کے ان کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں “بہت سفاکی سے اس نے اپنی حرص و جھوٹ نفرت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی تھی لمحے بھر کو شیری کی نظروں کے آگے اندھیرا سا چھایا، اسٹیئرنگ بے قابو ہوکر کار لہرائی تھی ۔
 
”اوہ…“مارے خوف کے عادلہ کے حلق سے چیخ برآمد ہوئی ۔ خوش قسمتی سے کار کے آگے کوئی گاڑی نہ تھی ، حادثہ ٹل گیا تھا وہ بھی خود پر قابو پانے میں کامیاب ہوا پھر استفسار کرنے لگا ۔ 
”آپ کو بھی جھٹکا لگانا، پری کی حقیقت جان کر ؟یہی حالت میری اس وقت ہوئی تھی جب میں نے پہلی بار ان کو ساتھ دیکھا تھا “اس موقع کی اس کو بہت عرصے سے تلاش تھی جب وہ شیری کا دل پری کی طرف سے اس حد تک بدگمان کردے کہ وہ اس کی پرچھائیں تک سے نفرت کرنے لگے۔
آج قدرت کی طرف سے اس کو یہ موقع مل گیا تھا وہ کچھ دنوں سے شیری کو طغرل کی طرف سے بدگمان و بے اعتنا دیکھ رہی تھی اب تو دل ہی دل میں وہ بے حد مسرور تھی کہ اپنی دلی مراد و مقصد میں کامیاب ہوگئی تھی ۔ 
###
صباحت بڑی بے چینی سے وال کلاک کی جانب بار بار دیکھ رہی تھی جہاں ٹائم تیزی سے گزر رہا تھا اور ساتھ ساتھ ان کا اضطراب و بے کلی بھی بار بار وہ سیل فون پر عادلہ کا سیل نمبر پش کر رہی تھی ۔
عادلہ نے سیل آف کر رکھا تھا اور وہ عادلہ کی اس غیر ذمہ داری پر بری طرح کھول رہی تھیں، سارا دن وہ ذہی دباؤ کا شکار رہی تھیں جب سے طغرل نے ان کو بتایا تھا فیاض صاحب اسی ہفتے عائزہ کی شادی کرنا چاہتے ہیں یہ خبر ان کے اوسان خطا کرچکی تھی ۔ انہیں لگ رہا تھاوہ امتحان کے گرداب میں پھنس چکی ہیں ایک کے بعد ایک مصیبت، ایک کے بعد ایک مسئلہ ان کو درپیش آرہا تھا۔
فیاض ان سے لاتعلق ہوچکے تھے۔ 
اماں جان سے تعلقات کبھی بھی انہوں نے اتنے اچھے نہ رکھے تھے کہ ان کو تمام حالات بتاکر مشورہ لیا جاتا۔ مدد کی کوئی سبیل بنتی، ہمیشہ اپنی بیٹیوں کی فوقیت دی تھی حد سے بڑھ کر آزادی بھی دی، جس کی سزا اب وہ خود بھی بھگت رہی تھیں۔ وہ ناعاقبت پسند عورت تھیں، وہ اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھتی تھیں بلکہ خود ترسی کا شکار بن کر غلطیوں پر غلطیاں کرنا ہی ان کی سرشت تھی وہ عائزہ کے کمرے میں آئیں۔
 
”عائزہ! تم تو ہر وقت روم میں بند ہوکر بیٹھی رہتی ہو، باہر نکل کر بھی دیکھ لیا کرو،“وہ ان کے غصے کا ہدف بنی۔ 
”کیا ہوگیا ہے ممی؟“وہ جو سوچوں میں گم تھی گھبرا کر گویا ہوئی ۔ 
”ابھی کچھ نہیں ہوا، مگر لگتا ہے تمہارا باپ کچھ نہ کچھ کرکے ہی دم لے گا “وہ غصے سے بولتیں کرسی پر بیٹھ گئیں۔ 
”پاپا کو معلوم ہوگیا ہے کیا راحیل کے بارے میں ؟“اس نے کارپٹ پر بیٹھ کر ان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
 
”راحیل؟نام مت لو اس منحوس کا، خود تو مر گیا ہمارے لیے بے شمار پریشانیاں چھوڑ گیا۔ فیاض نے اسی ہفتے میں تمہاری شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور سب ہی جانتے ہیں وہ جو کہتے ہیں کرکے بھی دکھاتے ہیں ان کے فیصلے ہمیشہ اٹل ہوتے ہیں “عائزہ کا چہرہ زرد پڑ گیا وہ حیرت زدہ انداز میں انہیں دیکھتی رہی جو غم و غصے کی زیادتی سے نان اسٹاپ بول رہی تھیں۔
 
”فیاض نے مجھے کبھی سکھ و خوشی نہ دینے کی قسم اٹھارکھی ہے اب اچانک شادی کا فیصلہ کرکے بیٹھ گئے اور میں کس طرح بھائی اور بھابھی کو راضی کروں گی ؟پہلے ہی ان کے دماغ آسمان پر پہنچے ہوئے ہیں، میری کال کرنے پر تمہاری عبادت کو آئے تھے اور اماں جان کے سامنے کس طرح کرید کرید کر تمہاری طبیعت کا پوچھ رہے تھے وہ تو اماں جان کا موڈ اچھا تھا جو بھابھی کے تیکھے سوالوں کا جواب مطمئن انداز میں دیتی رہیں۔
میں تو شاید ان کو ایک بھی ایسا جواب نہ دے پاتی جو بھابھی اور بھائی کو مطمئن کرتا“
”ممی! ماموں جان ممانی سے بہت ڈفرنٹ ہیں “
”ارے بس رہنے دو ماموں جان ! ہونہہ کاٹھ کے الو بنے ہوئے ہیں بھابھی صاحبہ کے ہاتھوں وہ دیکھتے اپنی آنکھوں سے ہیں مگر فیصلے ان کی مرضی سے کرتے ہیں، میری طرح بدنصیب نہیں ہیں بھابھی صاحبہ! جو میاں بیٹی کی شادی کی پلاننگ کر رہا ہے اس کل کے بچے طغرل کو سب معلوم ہے، اگر کوئی اس قابل نہیں تو وہ میں ہوں، جس سے مشورہ تو درکنا بتانا بھی گوارا نہ کیا “وہ کہہ رہی تھیں معاً دروازہ کھول کر مسکراتی عائزہ اندر آئی۔
 
”ایک فنٹاسٹک نیوز ہے مما! آپ سنیں گے تو خوش ہوجائیں گی “وہ قریب بیٹھ کر ان سے لپٹتی ہوئی بولی۔ 
”اچھا…کیا شیری تم سے شادی پر راضی ہوگیا ہے “ایک لمحے میں ان کا غصہ غائب ہوا۔ 
”ایسا ہی سمجھ لیں، وہ جلد ہی پرپوز کردینے والا ہے مجھے ۔ پری کی وجہ سے وہ مجھے نظر انداز کرتا تھا، آہستہ آہستہ میں اس کا دل پری کی طرف سے بدظن کرنے لگی تھی اور آج تو میں نے شیری کے دل میں پری کی طرف سے ایسی آگ لگائی ہے کہ وہ کبھی اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرے گا “
”یہ تو بہت اچھی خبر ہے، کیا کہا تم نے پری کے متعلق شیر ی سے “

   1
0 Comments